Tinker Bell

Add To collaction

وہ شخص آخرش مجھے بےجان کر گیا

قسط # 4

یہ منظر ایک فلیٹ کا تھا جہاں ایک کمرے میں تین لوگ بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک گہرے سبز رنگ کی ہڈی اور ماسک لگائے ہوئے تھا جبکہ دوسرا گہرے نیلے رنگ کی ہڈی اور ماسک میں تھا۔ سربرائی کرسی پر ایک پینتیس  سالا بارُعب شخص براجمان تھے۔

' اسلام علیکم کمانڈو۔' مشترکہ سلام کیا گیا۔

' وعلیکم اسلام۔ کیا خبر ہے۔' ان بارُعب شخصیت جن کا نام کمانڈو تھا نے سلام کا جواب دیتے ہوئے سبز ہڈی والے سے پوچھا۔

' فلحال تو کوئی نہیں سر۔ آپ خود ہی پوچھ لیں۔' سبز ہڈی والے نے کہا تو کمانڈو نے ٹیبل پر پڑے ٹیلی فون کا کریڈل اٹھایا اور ایک نمبر ملایا۔

بیل جا رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد فون اٹھایا گیا۔

' اسلام علیکم سر!' بھاری با رُعب آواز آئی۔

' کام ہو گیا؟' سنجیدگی سے پوچھا گیا۔

' جی سر۔' مقابل کی پُرمسرت آواز آئی۔

' ہمم۔ جلد سے جلد نکلو وہاں سے۔' یہ کہتے ہوئے وہ فون رکھ کر باقی دونوں کی جانب متوجہ ہوئے۔

' نیکسٹ ٹارگٹ کون سا ہے سر!' نیلی ہُڈی والے نے مہذب انداز میں پوچھا۔

' ویمن یونیورسٹی۔' کمانڈو نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

' اور یہ ٹاگٹ لیڈ کون کرے گا۔' سبز  ہڈی والا بولا۔

' تم۔' کمانڈو نیلی ہڈی والے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے۔

' کک کیا۔۔۔۔۔ سس سر پلیز نہیں۔ آپ جو بھی کہیں گے میں وہ کرنے کو تیار ہوں پلیز یہ نہیں۔' نیلی ہڈی والا منتوں پر اُتر آیا۔

' تو پھر کون جائے گا؟' کمانڈو کی پیشانی پر بل نمودار ہوئے۔

' سر آپ اُسے ہی بھیج دیں۔ ویسے بھی یہ تین سال ہم دونوں نے ہی تو سنبھالا ہے سب کچھ۔' سبز ہڈی والے نے اپنے ساتھی پر ترس کھاتے ہوئے حل پیش کیا۔

' ہممم۔ چلو ٹھیک ہے۔ اب تم دونوں جاؤ اور اپنا اپنا ہوم ورک کر کہ ہی شکل دِکھانا۔' سنجیدگی سے کہتے کمانڈو نے آخر میں شرارت سے کہا۔

' یس سر!' مسکراتے ہوئے دونوں کمانڈو کو سلیوٹ کرتے ہوئے چلے گئے۔ کمانڈو بھی گہرہ سانس بھرتے ہوئے نکل گئے۔

********************

کھانے کے ٹیبل پر سب بیٹھ چکے تھے۔ اقراء بریانی کی ڈیش  رکھتے ہوئے خود بھی بیٹھ گئی۔

' سب سے پہلے بھائی کو سرو کریں۔ آخر کو انھی کے لیے تو بنائی گئی ہے۔' تانیہ پرشوخ لہجے میں بولی۔ 

تانیہ کو آنکھیں دکھاتے، اقراء نے ڈیش دائم کی طرف بڑھائی۔

 ' ارے ارے یہ کیا کر رہی ہیں آپ؟ اپنے ہاتھوں سے ڈالیں نہ۔'  وہ شرارت سے گویا ہوئی۔

'  تانیہ بس کرو، اب مار کھاو گی۔' اقراء کی بس ہو گئی، تو ڈانٹتے ہوئے بولی۔ لیکن تانی نے 'مطمئین بغرت' ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے دانت نکال لیے۔

اس سے پہلے کہ ان میں مزید کوئی بات ہوتی، گاڑی کی آواز نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور تانی نے بغیر کچھ سوچے سمجھے باہر دوڑ لگا دی۔ باقی سب بھی تانی کے پیچھے گئے۔

' ڈیڈی۔۔۔۔۔۔۔۔' تانیہ چیختے ہوئے مجتبٰی غازیان کے گلے لگ گئی۔

' اسلام علیکم ڈیڈی۔ کیسے ہیں آپ؟ اور آپ نے تو کل آنا تھا نا؟' تانی  نے سوالات کی بھرمار کر دی۔

' وعلیکم اسلام پرنسز۔ میں بلکل ٹھیک، اور اپنی بیٹی کے لیے آج ہی واپس آ گیا ہوں۔' انھوں نے تانی کو پیار کرتے ہوئے کہا۔

' اسلام علیکم ڈیڈی۔' دائم اور اقراء نے مشترکہ سلام کیا۔

' وعلیکم اسلام بچوں۔' مجتبٰی غازیان نے دونوں کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیا۔

' اسلام علیکم بیگم۔' مجتبٰی غازیان  نے اپنی بیگم کو پیچھے کھڑا دیکھ کر کہا۔

' وعلیکم اسلام ۔ میں کر رہی تھی لیکن آپ کو اپنے بچوں سے فرصت ہی نہیں۔' غزالہ بیگم نے مسکراتے ہوئے وضاحت دی۔

مجتبٰی غازیان اور غزالہ بیگم کی ارینج میرج تھی، لیکن آپس میں اتنی اچھی انڈرسٹینڈنگ تھی کہ کوئی بھی اس بات پر یقین نہیں کرتا تھا۔

' اب اندر بھی چلیں یہ یہں رکنے کا ارادہ ہے؟' مجتبیٰ غازیان نے ہنستے ہوئے کہا۔ سب اندر چلے گئے۔

مجتبٰی غازیان فریش ہو کر کھانے کی ٹیبل پر آ گئے، اور کھانا نکال کر کھانے لگے۔

' پائیز کو لینے کب تک جانا ہے؟'  یاد آنے پر مجتبٰی غازیان نے دائم سے پوچھا۔

' ڈیڈی وہ آج نہیں آ رہا۔ سنڈے کو آئے گا۔' دائم نے تانیہ کو دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔

' کیوں؟ سنڈے کو کیوں؟' مجتبٰی غازیان نے سنجیدگی سے پوچھا۔

'میری بات تو نہیں ہوئی لیکن تانی بتا رہی تھی کہ کام کی وجہ سے بزی ہے۔' دائم  نے باپ کو مطمئن کرنا چاہا، کیوں کے بچپن سے ان کے اور پائیز  کے تعلقات کچھ خاص اچھے نہیں تھے، جس کی وجہ پائیز کی  لاپرواہی اور کسی حد تک خود غرض طبیت  تھی۔

' یعنی کہ دو دن بعد۔۔۔' مجتبیٰ غازیان نے سر ہلایا۔

'اور میری مینا کیوں خاموش ہے؟' تانیہ کی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا۔

' نہیں ڈیڈی۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ آپ بھائی سے بات کر رہے تھے نا تو اس لیے چپ ہوں۔' تانیہ نے بات سنبھالتے ہوئے کہا مگر اندر سے وہ بہت اداس ہو گئی تھی پائیز  کے نہ آنے کا سوچ کر۔

کھانے کے بعد تانیہ اور اقراء نے مل کرے برتن سمیٹے۔ جبکہ دائم مجتبٰی غازیان سے بزنس ٹرپ کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ باتوں باتوں میں برتن بھی دھل گئے تو سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ تانیہ جیسے ہی بیڈ پر بیٹھی، کب کے رکے ہوئے آنسو نکل پڑے اور روتے روتے اس کی آنکھ لگ گئی۔

*******************

ادھر شارمین بھی سب کو چائے دے کر اپنے کمرے میں جا رہی تھی کہ نسرین بیگم کی آواز نے رکنے پر مجبور کردیا۔

' عابر میری بات سنیں۔' عابر اعظم  کو موبائل میں مصروف دیکھ کر نسرین بیگم نے کہا۔

' سن رہا ہوں بولو۔' مصروف سے انداز میں جواب آیا۔

' نہیں آپ نہیں سن رہے۔ رکھیں اس موبائل کو۔' نسرین بیگم نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔

' اچھا رکھ دیا۔ اب بولو۔' عابر اعظم  نے موبائل بند کرتے ہوئے کہا۔

' شارمین  کے لیے رشتے آ رہے ہیں۔ پہلے تو میں منا کرتی رہی، لیکن ہمارے بڑے کہتے تھے کہ رشتہ بار بار ٹھکرانے سے اللہ بھی نازاض ہوتا ہے اور رشتے بھی نہیں آتے۔ اس لیے اب کی بار جو رشتے آئے ہیں ان پر غور کیا ہے۔' نسرین  بیگم سانس لینے کو رکیں۔

عابر اعظم سنجیدگی سے سن رہے تھے۔ جبکہ باہر کھڑی شارمین کا وہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔

' آج کل دو رشتے آئے ہیں، ان میں سے ایک ڈاکٹر ہے جبکہ دوسرا ابھی باہر سے آیا ہے اور اپنے بھائی کے ساتھ بزنس سنبھالے گا۔'

' ہمم۔۔ اور یہ کب کی بات ہے؟ عابر اعظم سوچتے ہوئے بولے۔ 

' ڈاکٹر والا کل اور بزنس والا آج۔ میں چاہتی ہوں کہ آپ اپنے بھائیوں سے مشورہ کریں اور لڑکوں کے بارے میں بھی پتا کروائیں۔'

' وہ تو میں کروا لوں گا، لیکن یہ بہت جلدی نہیں؟' عابر اعظم  اداس ہوتے ہوئے بولے۔ اور کیوں نہ ہوتے، اکلوتی بیٹی کی شادی کی بات ہو رہی تھی۔

' کوئی جلدی نہیں ہے۔ ویسے بھی یہ اللہ کا حکم ہے کہ لڑکی جب بڑی ہو جائے تو اس کی جلدی شادی کروا دو۔' اور یہاں نسرین بیگم کے اندر کی روایتی ماں جاگ چکی تھی۔

' آپ کو بھی پتا ہے کہ آج کل کا دور صحیح نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ وقت پر اپنے گھر کی ہو جائے اور ویسے بھی میں کون سا ابھی شادی کے حق میں ہوں۔ بس اتنا چاہتی ہوں کہ منگنی یا نکاح ہو جائے۔' اس سے آگے سننا، شارمین  کے بس میں نہیں تھا، سو آنسو پیتے اپنے کمرے میں چلی گئی۔

' چلو ٹھیک ہے میں بات کرتا ہوں سب سے۔' یہ کہہ کر عابر اعظم  لیٹ گئے۔

' عابر اب اس میں اداس ہونے کی کیا بات ہے؟ آج نہیں تو کل یہ ہونا ہی ہے۔' ان کی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے نسرین بیگم نے سمجھاتے ہوئے کہا۔

' اور میں بھی تو اپنے ابو کی لاڈلی بیٹی تھی۔ میری بھی شادی ہوئی ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔' نسرین بیگم نے بات کا رخ اپنی طرف موڑ لیا جس پر  عابر اعظم  ہنس پڑے۔

***********

کمرے کا دروازہ بند کر کہ شارمین اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ وہ ابھی تک صدمے میں تھی۔ آنسو لڑیوں کی صورت میں بہہ  رہے تھے۔

' بہتر یہی ہے کہ وقت پر اپنے گھر کی ہو جائے۔' بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔

' منگنی یا نکاح ہو جائے۔' یہ الفاظ ابھی تک شارمین  کو سنائی دے رہے تھے۔

' یہ مما کیا کہہ رہی ہیں؟' شارمین  نے سرگوشی کی۔

' کیا میں مما پاپا جانی پر بوجھ بن رہی ہوں؟' آنسو لگاتار بہتے جا رہے تھے۔

' عیشا، تمہیں پتا ہے میرا۔۔۔۔' فہد نے بات ادھوری چھوڑ دی۔

' کیا ہوا؟؟ رو کیوں رہی ہو؟' شارمین  کے پاس بیٹھتے، فہد نے پریشانی سے پوچھا۔

' تمہیں پتا تھا نہ۔' غزالی آنکھوں میں شکایت تھی۔

' کیا پتا تھا؟' 

' یہی کہ وہ مہمان کون ہیں؟' شارمین نے روتے ہوئے  پوچھا۔

' مجھے۔۔'

' فہد جھوٹ نہیں۔' شارمین نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔

' آہ۔۔۔ مما نے آج ہی بتایا تھا۔' فہد نے ہتھیار ڈال دیے۔

آنسو لڑیوں کی صورت میں بہنے لگے۔ یہ سوچ ہی بے چین کرنے کو کافی تھی کہ وہ کسی سے منصوب کر دی جائے گی۔

' یار عیشا اس میں رونے کی کیا بات ہے؟' بہن کے آنسوؤں سے پریشان ہوتے ہوئے فہد سمجھانے کی کوشش کی۔

' پریشان کیوں ہوتی ہو؟  تمہاری مرضی کے بغیر نا کچھ ہو گا اور نا ہی پاپا جانی ہونے دیں گے۔ پلیز رو نہیں۔' فہد نے شارمین کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔

' ہمم۔۔۔ یہ بھی صحیح ہے۔ میری مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوگا۔' شارمین  نے خود کو تسلی دیتے ہوئے کہا تو دور کھڑی قسمت اس کی بات پر مسکرا اٹھی۔

' ہاں نا۔ میں بھی یہی کہ رہا ہوں۔ اچھا اب رونا نہیں ہے۔ پھر میں بھی اپسٹ ہو جاتا ہوں۔' فہد پھیکا سا مسکراتے ہوئے بولا۔

' اچھا نہیں روتی۔' شارمین نے مسکراتے ہوئے کہا، پھر کچھ یاد آنے پر بولی،

' تمہیں کوئی کام تھا؟'

' ہاں وہ میں یہ پوچھ رہا تھا کہ تم نے میرا رجسٹر دیکھا ہے؟ مجھے مل نہیں رہا۔'

' وہ براون والا؟'

' ہاں ہاں وہی۔' فہد نے تصدیق کی۔

' وہ الماری میں رائٹ سائیڈ  میں پڑا ہے۔ اور تم سو جاؤ نا ابھی تک جاگ رہے ہو۔' شارمین نے رعب جھاڑتے ہوئے کہا۔

' ہاں بس جا رہا ہوں۔ اور رونا نہیں اچھا!' فہد نے جاتے ہوئے تلقین کی۔

' اچھا نا نہیں روتی۔ اب جاؤ جلدی۔'

فہد مسکراتے ہوئے چلا گیا اور شارمین  اپنے بھائی کی اتنی کیئر پر مسکرا دی۔

' ہاں نا میں ویسے ہی پریشان ہو رہی ہوں۔ میری مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو گا۔ میں صبح ہی مما پاپا جانی سے بات کروں گی۔ مجھے کوئی شادی وادی نہیں کرنی۔' یہ سوچ کر شارمین سونے کو لیٹ گئی۔ یہ جانے بنا کہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ وہی ہو جو ہم چاہیں!!

********************

پیاس کی شدت نے تانی کو اٹھنے پر مجبور کر دیا۔ بیڈ پر بیٹھے بیٹھے ہی تانی نے سائد ٹیبل پر نظر  دوڑائی جہاں خالی جگ اس کا منہ چڑا رہا تھا۔

' اوہووو۔۔۔ پانی کو بھی ابھی ختم ہونا تھا؟' منہ بناتے ہوئے وہ بیڈ سے اتری اور جگ لے کر پانی لینے چلی گئی۔

کچن میں آکر تانیہ نے پہلے خود پانی پیا، پھر جگ میں ڈالا۔ ابھی وہ کچن سے نکلنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ باہر سے کچھ آوازیں آنے لگیں یوں جیسے کیسی کو باندھا جا رہا ہو اور وہ خود کو چھڑانے  کی کوشش کر رہا ہو۔تانیہ  جگ وہی پر رکھ کر باہر آئی تو وہاں کا منظر اس کے ہوش اڑانے کو کافی تھا۔ غزالہ بیگم، مجتبٰی غازیان  اور اقرا کو ہاتھ پاؤں باندھ کر کرسیوں پر بیٹھایا گیا تھا اور دائم کے ہاتھ باندھے جا رہے تھے۔

' بھائی ی ی ی۔۔۔۔۔۔' تانیہ چیختے ہوئے دائم کی طرف بھاگی، لیکن راستے میں ہی ایک نقاب پوش نے اسے دبوچ لیا۔

' چھوڑو مجھے۔'  آنکھوں میں آنسو لیے تانیہ چلائی۔

' ایسے کیسے چھوڑ دوں، اگر تم لوگ اس کی سلامتی چاہتے ہو تو بتاؤ کیش کہاں ہے۔' نقاب پوش نے کرخت  لہجے میں کہا۔

' اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا تو میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔' مجتبیٰ غازیان  نے غصے سے کہا۔ 

وہ دو لوگ تھے، جن میں سے ایک نے تانی کو پکڑ رکھا تھا جبکہ دوسرا دائم کو باندھ کر گن لیے پیچھے ہی کھڑا تھا۔ اس سے پہلے کہ ان میں مزید کوئی بات ہوتی، ایک مانوس سی آواز نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

' واو، لگتا ہے سب میرے انتظار میں بیٹھے ہیں۔'   وہ اپنے موبائل میں مگن تھا، مگر کوئی جواب نہ پا کر جب سر اٹھایا تو سکتہ میں آ گیا۔

' یہ سب کیا ہو رہا ہے؟' وہ حیران و پریشان ہوگیا۔ 

' پائیز بھائی۔' تانی نے بھرائی ہوئی آواز میں پکارا۔

' کون ہو تم لوگ؟ اور تم تانی کو چھوڑ دو۔' یہ کہتے ہوئے پائیز  تانیہ کی طرف بڑھنے لگا۔

' وہی رک جاو ورنہ ساری گولیاں اس لڑکی میں اتار دوں گا۔' نقاب پوش غرایا۔ لیکن پائیز  بنا رکے آگے بڑھتا رہا۔

' میں کہہ رہا ہوں وہی رک جاو۔' اپنی بات کا اثر نہ ہوتے دیکھ کر نقاب پوش  تانیہ کو آگے کی طرف دھکیل کر بھاگنے لگا۔ اگر پائیز  بروقت اسے نہ پکڑتا تو وہ زمین بوس ہو جاتی۔

' آپ ٹھیک ہو؟' تانی کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیے پائیز نے فکرمندی سے پوچھا جس پر تانیہ نے سر ہلایا۔

اب پائیز  ان دونوں نقاب پوش کی طرف متوجہ ہوا جو ایک بیگ پکڑے بھاگنے کی تیاری میں تھے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ بھاگتے، پائیز نے ان میں سے ایک کو پکڑ لیا۔ دوسرا اپنے ساتھی کی مدد کو آیا۔ یوں ان میں ہاتھاپائی شروع ہو گئی۔

دائم کی آواز پر تانی ان کی طرف بھاگی اور رسیاں کھولنے لگی۔ تانی جیسے ہی دائم کی رسیاں کھول کر مجتبٰی غازیان کی طرف متوجہ ہوئی، گولی کی آواز پر تانیہ کے ہاتھ رک گئے۔ پائیز  کی طرف بڑھتا دائم بھی اپنی جگہ سن ہو گیا۔ اقراء اور غزالہ بیگم کا چہرہ انہونی کا سوچ کر سفید ہو گیا۔ جبکہ نقاب پوش موقع سے فرار ہونے کی بجائے بےیقینی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

'پائیز ۔۔۔۔۔۔۔' مجتبٰی غازیان کی چیخ نے جیسے سب کو ہوش دلایا۔

دائم بھاگ کر پائیز  کے پاس پہنچا۔

لیکن پائیز  کو خون میں لت پت دیکھ کر دائم کے آنسو بہنے لگے۔ دائم کی دیکھا دیکھی غزالہ بیگم اور اقراء نے بھی رونا شروع کر دیا۔ مجتبٰی  غازیان  خود کو رسیوں سے آزاد کروا کر پائیز کے پاس پہنچے، لاکھ اختلاف کے باوجود پائیز  انھیں عزیز  تھا۔ 

اور تانیہ، وہ تو اپنی جگہ سن کھڑی تھی۔ اسے آس پاس کا ہوش ہی نہیں تھا۔ اگر پتہ تھا تو صرف اتنا کہ اس نے گولی کی آواز سنی تھی۔

نقاب پوش بھی اپنی جگہ صدمے سے نڈھال ہو رہے تھے، ان میں سے ایک نے ہی عقل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایمبولینس کو کال کی اور روتے ہوئے اپنا نقاب اتار دیا۔

' چاچو رئیلی سوری پتا نہیں یہ کیسے ہو گیا۔ یہ سب پلین تھا ہم نے تانی کو سرپرائز دینا تھا۔'

وہ نقاب پوش اور کوئی نہیں بلکہ عریش طائل تھا، مجتبٰی غازیان  کے بھائی طائل غازیان کا بیٹا۔ جبکہ دوسرا نقاب پوش جو کہ غزالہ بیگم اور اقراء کی رسیاں کھول رہا تھا، وہ تھا شارق سہیر، سہیر غازیان کا بیٹا۔ ایمبولینس کے آتے ہی مجتبٰی غازیان  اور باقی سب  پائیز کو لے کر ہسپتال لے گئے۔ اقراء غزالہ بیگم کو سنبھال رہی تھی، جن کا رو رو کر برا حال ہو رہا تھا۔

' ممی پلیز خود کو سمبھالیں، پائیز کو دعاوں کی ضرورت ہے آپ دعا کریں اس کے لیے۔' اقراء خود بھی نڈھال تھی، کیونکہ پائیز اسے بلکل سگے بھائیوں کی طرح عزیز تھا۔

' تانیہ کہاں ہے۔' غزالہ بیگم جو اس سب میں تانی کو بلکل ہی فراموش کر چکی تھی اچانک ہی چونکیں۔

اقراء بھی پریشان ہو گئی کیونکہ سب ہی جانتے تھے کہ تانی اپنے بھائیوں کے معاملے میں بہت حساس تھی۔ پائیز  کے باہر جانے والی بات پر تانی نے رو رو کر گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔ پائیز  کے وعدہ کرنے پر اور اس بات کا یقین دلانے پر کہ کچھ عرصہ کی بات ہے پھر واپس آجانا ہے، تب جا کر وہ راضی ہوئی تھی۔ لیکن اب تو اس کے سامنے پائیز کو گولی لگی تھی۔۔۔

' تانی، تانی میری جان!' اقراء تڑپ کر تانیہ کی طرف بڑھی  جو اس جگہ بیٹھی ہوئی تھی جہاں پائیز  کو گولی لگی تھی۔

' تانی میری جان، کچھ نہیں ہوگا پائیز  کو۔' تانیہ بنا کوئی اثر لیے، ویسے ہی بیٹھی رہی۔ غزالہ بیگم  بھی تانیہ  کے پاس آ گئیں۔

' تانی بچے۔' غزالہ بیگم نے تانیہ کو اپنے ساتھ لگا لیا۔ لیکن تانیہ کی چپ نہ ٹوٹی۔ وہ یک ٹک خون کو دیکھی جا رہی تھی، جو پائیز  کو گولی لگنے پر فرش پر پھیل گیا تھا۔

' بھائی نے پرامس کیا تھا کہ آکر سب سے پہلے مجھ سے ملیں گے۔' تانیہ  نے کھوئے ہوئے  لہجے میں کہا۔

' لیکن وہ تو مجھ سے ملے ہی نہیں، مجھ سے بات بھی نہیں کی۔' تانیہ  کے چہرے سے اس کے کرب کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ اقراء نے روتے ہوئے دائم کو فون کیا۔ چوتھی بیل پر فون اٹھایا گیا۔ 

' ہیلو دائم! پائیز  کیسا ہے؟ ڈاکٹرز کیا کہہ رہے ہیں؟  تانی کی کنڈیشن ٹھیک نہیں ہے-' ایک ہی سانس میں سب پوچھتے ہوئے اقراء خود بھی رو  پڑی۔

' ابھی آپریشن ہو رہا ہے اور تانی کو کیا ہوا؟ میری بات کرواو۔' دائم  کی آواز رونے کی وجہ سے بھاری ہو رہی تھی۔ اقراء نے فون تانیہ کو پکڑایا۔

' تانی بچے!' 

' بھائی! پائیز بھائی مجھ سے ملے بھی نہیں۔' یہ کہتے ہی کب کے رکے آنسو برس پڑے۔

' میرے بچے کو مجھ پر ٹرسٹ ہے نہ، انشاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ ممی کا اور اپنا خیال رکھو۔ اور بے فکر رہو پائیز  ٹھیک ہو جائے تو پھر ہم مل کر اس کی کلاس لیں گے۔' پیار سے کہتے ہوئے، دائم نے آخر میں شرارت سے کہا۔

' خوب تنگ کریں گے، اور ناراض بھی ہو جائیں گے۔' تانیہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ کچھ دیر پہلے والی کیفیت زائل ہو گئی۔ اب وہ مطمئن تھی کیوںکہ دائم نے  پائیز  کو ٹھیک ٹھاک واپس لانے کا یقین دلایا تھا۔

' ٹھیک ہے جیسا میری گڑیا کہے گی ویسے ہی کریں گے۔ اب آپ خود بھی فرش ہو جاو اور ممی کو بھی کہو  کہ فکر نہ کریں۔' دائم  نے جان بوجھ کر اقراء کا نام نہیں لیا۔

'ٹھیک ہے اور آپی کا خیال کون رکھے گا؟' تانیہ  نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

' اس کے لیے میری چھوٹی چڑیا ہے نہ-' دائم نے مان سے کہا۔

تانی ہنس پڑی۔ اسے ہنستا دیکھ کر غزالہ بیگم اور اقراء بھی پر سکون ہو گئیں۔

' اچھا میں رکھتا ہوں، زرا ڈیڈی کو دیکھ لوں۔ اللہ حافظ'

'اللہ حافظ بھائی۔' تانی نے فون اقراء کو دے دیا اور خود غزالہ بیگم کو اٹھاتے ہوئے کہا۔

' چلیں ممی آپ اور آپی ریسٹ کریں۔ بھائی نے کہا ہے کہ وہ پائیز  بھائی کو ٹھیک ٹھاک واپس لے کر آئیں گے۔'

غزالہ بیگم کو اپنے بیٹے پر پیار آیا، تانی کو پیار کرتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ جبکہ اقراء تانیہ کے ساتھ مل کر صفائی کرنے لگی۔ خون صاف کرتے ہوئے تانیہ  کے آنسو نکل آئے۔

' اپنے اللہ اور بھائی پر بھروسہ رکھو تانی۔' اقراء نے پیار سے کہا۔

تانیہ نے سر ہلا اور کام کی طرف متوجہ ہوگئی۔

*****************

جاری ہے!

   13
10 Comments

Arshik

01-Aug-2022 08:01 AM

ماشاءاللہ بہت خوبصورت لکھا ہے💓💓

Reply

Milind salve

01-Aug-2022 12:53 AM

👌👏

Reply

Chudhary

31-Jul-2022 11:52 PM

Nice

Reply